Siyasat.pk

Bookmark Page

Express TV Live

پردیس میں بے بسی کی موت اور بہنوں
 
Reply to topic    Siyasat pk, Pakistani Siasat Forums, Political News Home » Siasi Videos
پردیس میں بے بسی کی موت اور بہنوں
Author Message
Sadia Khan



Joined: 04 Nov 2017
Posts: 1097

پردیس میں بے بسی کی موت اور بہنوں


اس طرح کے واقعات اب عام ہوگئے تھے، ہر تھوڑے دنوں کے بعد مجھے یہ ہی سب کچھ کرنا پڑتا تھا۔ نوجوان لوگوں کی لاشیں، ان کے جوان چہرے بھربھرے بالوں والے سر، ہونٹوں کے اوپر ہلکی ہلکی مونچھوں والے نوجوان جو اپنی زندگی بنانے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار تھے اور نہ جانے کیسے کیسے، کہاں کہاں سے ہوتے ہوئے دھکے کھاتے ہوئے اپنی اُمنگوں، اپنے خوابوں اور اپنے گھروالوں کے دُکھوں کے ساتھ یورپ کے سمندروں کا شکار ہوجاتے تھے۔ میں اِن لاشوں کے چہروں کو غور سے دیکھتا تھا۔ یہ کبھی ہنستے ہوں گے زور سے قہقہہ لگاتے ہوں گے، ان کی آنکھوں میں چمک ہوتی ہوگی، ان کے ہونٹوں نے اپنے ماؤں بہنوں کے ماتھوں کو چھوما ہوگا، کسی محبوبہ کے خواب دیکھے ہوں گے اور ان سے بچھڑتے وقت اپنی نم آنکھوں کو چھپاتے ہوئے دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا ہوگا، وہ خواب، وہ ہنسی، وہ قہقہہ، وہ بوسہ سب کچھ سمندروں کی بے درد نمک زدہ لہروں کی نذر ہوجاتا ہے۔پاکستان میں ایک مافیا کام کررہا تھا۔ شہروں اوردیہاتوں کے لوگ ان نام نہاد کارندوں کو لاکھوں روپوں کی صورت میں رقم دیتے تھے۔

ان کےپاسپورٹوں پر ایران و عراق کے زیارت کے ویزے لگائے جاتے، پھر انہیں بلوچستان کے راستے ایران لے جایا جاتا، کبھی عراق اور کبھی شام۔ جہاں سے انہیں چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں سوار کیا جاتا، یا جہازوں کے کنٹینروں میں مویشیوں سے بھی بدتر صورتوں میں بند کردیا جاتا۔ کبھی انہیں ایران کے راستے ترکی کی سرحدوں پر لا کر ترکی میں دھکیل دیا جاتا، جہاں سے وہ مختلف سمندری اورخشکی کے راستوں سے یورپ کے مختلف ملکوں میں گھسنے کی کوشش کرتے اور نہ جانے کتنے ان ہی راستوں پر جان دے دیتے تھے۔

ہر تھوڑے دنوں کے بعد عجیب عجیب باتیں عِلم میں آتی تھیں۔ ایک دفعہ لاش ٹرک کے پیٹرول کی ٹنکی سے ملی جسے تقسیم کرکے ایک حصّے میں انسانوں کا اسمگل کیا جاتا تھا۔ کسی لاری کے خفیہ خانے میں تابوت بنا کر لیٹے ہوئے آدمی کی جان چلی گئی۔ ریل کی مال گاڑی میں سفر کرتے ہوئے سردی سے جان کھو بیٹھے۔ میں ان چہروں، ان لاشوں، ان جسموں، ان جوان لوگوں کے مردہ خوابوں کو دیکھ کر محسوس کرکے پریشان ہوجاتا تھا مگر میرے بس میں کچھ بھی نہیں تھا۔ جن لوگوں کے بس میں تھا وہ اسلام آباد لاہور اور کراچی کے عظیم الشان محلوں میں بیٹھ کر اپنی اور اپنے بچوں، اپنے خاندانوں، اپنے دوستوں کی شاندار زندگی کو سنوارنے، گزارنے میں لگے ہوئے تھے۔ میرا دِل خون کے آنسو روتا تھا، میرے بس میں یہی تھا اس کے علاوہ میں کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا۔

دوسرے دن پاکستان ایمبیسی میں بیٹھ کر میں نے بہاولپور اور خان پور کے درمیان ایک چھوٹے سے شہر کے لوگوں کے مختلف فون نمبر حاصل کیے تاکہ ان مرنے والوں کے وارثوں کا سراغ مل سکے۔ مجھے فون پر امتیاز احمد کے نام کے ایک شخص نے بتایا کہ وہ اس گاؤں سے زیادہ فاصلے پر نہیں ہے انہیں جب میں نے تفصیلات بتائیں تو وہ مدد کرنے کے لیے آمادہ ہو گئے۔ انہوں نے مجھے چھ گھنٹے کے بعد فون کرنے کے لیے کہا تھا۔
پاسپورٹ کی تفصیلات کے مطابق مرنے والوں میں سے ایک کا نام محمد رفیق ولد محمد سعید تھا اس کا گاؤں امتیاز صاحب کے گھر سے قریب تھا۔ میں نے امتیاز صاحب سے درخواست کی کہ اگر ممکن ہوسکے تو وہ کسی کو اس گاؤں بھیج دیں یا خود چلے جائیں

اور گھر والوں کو اس اندوہناک واقعے کی خبر کریں، یا میری ان سے بات کرادیں تاکہ میں خود انہیں اس بارے میں بتاؤں۔ چار گھنٹے کے بعد امتیاز صاحب کا ایس ایم آیس آگیا کہ میں انہیں فون کروں۔ وہ اس وقت اس گاؤں میں ہی تھے۔ وہ محمد رفیق کے گھر والوں سے مل کر فون کا انتظار کررہے تھے۔میں نے انہیں فوراً ہی فون کیا، انہوں نے بتایا کہ انہوں نے محمد رفیق کے خاندان کو تلاش کرلیا ہے جو بہت ہی خراب حالات میں ہیں۔ اتنی خراب حالات میں ہیں کہ انہیں اس بات کی ہمت ہی نہیں ہوئی کہ وہ انہیں بتاسکیں کہ ان کے بیٹے کی موت سمندر میں ڈوب جانے سے ہوچکی ہے۔

میں نے انہیں آمادہ کیا کہ وہ ان کے پاس جائیں اور اپنے فون پر میری ان سے بات کرادیں یا ممکن ہوسکے تو ان کے گاؤں کے کسی آدمی کا فون نمبر لے لیں تو میں خود انہیں فون کرلوں گا۔ امتیاز صاحب نے کہا کہ وہ تھوڑی دیر میں مجھے بتاتے ہیں۔چالیس منٹ کے بعد ان کے ایس ایم ایس کے بعد میں نے انہیں فون کیا۔ انہوں نے مجھے مرنے والوں کے ماموں کا فون نمبر دیا تھا۔اسی عرصے میں مجھے میرے آفس سے میرے ساتھ کام کرنے والی ایولن لونارا کا فون آگیا کہ عراقی خاندان کا پتا نہیں چل پارہا ہے اور روم میں رہنے والے مقامی عراقیوں کے سرگرم افراد کو ساری لاشوں کی تفصیلات دیدی گئی ہیں۔ اگر ایک ہفتے میں کچھ نہیں پتا لگا تو مقامی عراقیوں کا خیال ہے کہ انہیں مقامی طور پر ہی دفن کردیا جائے۔

پاکستان کے شام کے وقت میں نے مرنے والے کے ماموں کو فون کرکے بتایا کہ محمد رفیق کی لاش سمندر سے ملی ہے، اس کے ساتھ کچھ اورپاکستانیوں کی لاشیں بھی ہیں۔عام طور پر پاکستانیوں کی لاشیں روم میں رہنے والے مقامی پاکستانیوں کے تعاون سے اگر ممکن ہو تو پاکستان بھیجی جاتی ہیں یا دفن کردی جاتی ہیں۔ محمد رفیق کا ماموں یہ خبر سن کر فون پر رونے لگا تھا، ہچکیوں کے بیچ میں اس نے بتایا تھا کہ وہ بہت پریشان تھا، اس کے خاندان پر بڑا قرضہ تھا اور وہ بچہ اس قرضے کو ہر صورت میں اتارنا چاہتا تھا، ایجنٹ نے پانچ لاکھ روپے لیے تھے اور یہ وعدہ کیا تھا کہ اسے لے کے جائیں گے اور نوکری بھی دلائیں گے مگر سارے وعدے غلط ثابت ہوئے اورسارا کاروبار دھوکے کے سوا کچھ نہ تھا۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہیں، میں نے ان سے کہا کہ میں انہیں دوسرے دن دوبارہ فون کروں گا۔

شام ہوچلی تھی اور پاکستانی کمیونٹی کے کچھ لوگ آپریشن اومیگا کے آفس پہنچ چکے تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ بائیس لاشوں میں چودہ لاشیں پاکستانیوں کی لگتی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ یہ سارے کے سارے ایک ہی علاقے کے رہنے والے تھے۔ طویل بحث و مباحثے کے بعد یہ طے ہُوا کہ اتنی ساری لاشوں کو پاکستان بھیجنے کا خرچہ بہت ہوگا۔ اگر کوئی شخص پاکستان سے آکر لاشوں کوشناخت کرے تو اس کے بعد کمیونٹی اسے دفن کرنے کا انتظام کردے گی اور اگر کوئی نہیں آنا چاہتا تو کمیونٹی پھر بھی انہیں دفن کرنے کو تیار ہے۔ پاکستانی کمیونٹی کے لوگ پاکستان سے آنے والے کے کرائے کا بھی بندوبست کرنے کو تیار تھے۔

دوسرے دن میں نے پھر محمد رفیق کے ماموں کو فون کیا۔ انہوں نے بتایا کہ رفیق کے ساتھ اس علاقے کے نو اورخاندانوں نے بھی اپنے بیٹوں کے لیے پیسے جمع کرائے تھے اور ان لوگوں کی بھی کوئی خبر نہیں ہے۔ پورے گاؤں میں ایک کہرام مچ گیاہے، لوگوں کا رو رو کر بُرا حال ہے، رفیق کی ماں سینہ کوٹ کوٹ کر بیٹے کا ماتم کررہی ہے۔ اس کا جوان بیٹا اپنی اُمنگوں اور اپنی ماں کے خوابوں کے ساتھ کھوگیا تھا۔میں افسوس کے علاوہ کیا کرسکتا تھا۔ یہ کیسا ملک ہے ہمارا، کیسے لوگ ہیں ہم، ہمارے پاس ایٹم بم ہے مگر اپنے بچوں کے لیے تعلیم نہیں ہے، ہم اربوں روپے اسلحہ جات پر خرچ کردیتے ہیں لیکن اپنے کسانوں کے بچوں کو روزگار نہیں دے سکتے۔

ہم لوگ موٹروے، بائی پاس، انڈرپاس اور نہ جانے کیا کیا بنانے میں کروڑ ہا کروڑ خرچ کررہے ہیں لیکن ان نوجوانوں کوسمندروں میں غرق ہونے سے نہیں بچاسکتے، جو اپنی ماؤں کو چھوڑ کر اپنے بھائی، بہنوں، خاندانوں، دوستوں، یاروں سے دُور دیس جا کر جانیں دے رہے ہیں۔ جتنا میں سوچتا تھا اتنا ہی مجھے غصّہ آتا تھا۔میں نے محمد رفیق کے ماموں کو بتایا کہ اگر وہ چاہیں تو کسی کو بھیجنے کے بارے میں سوچیں تو میں یہاں سے ویزے کا انتظام کروں گا اور یہاں رہنے والے پاکستانی لوگ ٹکٹ کا انتظام کردیں گے، اس طرح سے لاشوں کی شناخت ہوجائے گی۔اگلے دن ان سے دوبارہ بات ہوئی اور انہوں نے بتایا کہ محمد رفیق کے بڑے بھائی کو بھیجنے کو تیار ہیں جو علاقے کے ان نوجوانوں کو جانتا بھی تھا وہ بھی آنے کا خواہش مند تھا مگر رقم کا بندوبست نہ ہونے کی بنا پر چھوٹا بھائی زندگی بدلنے کے لیے نکل کھڑا ہُوا تھا۔


میں نے کہا کہ اس کا پاسپورٹ بنائیں اور تفصیلات مجھے بھیجیں اور ساتھ ہی میں نے پاکستانی کمیونٹی کو اس بارے میں اطلاعات فراہم کردی تھیں۔ لاشوں کو مردہ خانوں میں ہی رکھے رہنے دیا گیا۔ عراقیوں کے لیے فیصلہ کیا گیا کہ عراق میں صورت حال اتنی خراب ہے کہ وہاں سے کسی بھی قسم کا رابطہ ممکن ہی نہیں ہورہا ہے۔ یہی فیصلہ ہُوا کہ لاشوں کی تصویریں لے کر لاشوں کو مقامی قبرستان میں دفن کردیا جائے۔

بیس دن کے اندر ہی اٹلی میں ہی محمد رفیق کے بھائی کا ٹکٹ خریدا گیا اور اس کے آنے کے تمام انتظامات کرادیے گئے تھے۔ آپریشن اومیگا کے ذریعے اس کے ویزے کا انتظام بھی ہوگیا تھا۔ میں ہی اسے ایئرپورٹ لینے گیا۔ اسے ایئرپورٹ پر پہچاننے میں مجھے کوئی مشکل پیش نہیں ہوئی۔ اس نے شلوار قمض پہنی ہوئی تھی اور ایک لمبا سا کالاکوٹ سردی سے بچاؤ کے لیے پہنا ہُوا تھا جو شاید بھاولپور یا ملتان کے پرانے کپڑوں کی دوکان سے لیا گیا ہوگا۔
وہ میرے گلے لگتے ہی رو دیا۔ یہ میری اس سے پہلی ملاقات تھی لیکن بھائی کے مرنے کا غم اس کی آنکھوں سے سیلاب کی صورت بہہ رہا تھا۔ میں اسے اپنی گاڑی میں بیٹھا کر اپنے آفس لایا، اس کے رہنے کا انتظام ایک پاکستانی کے گھر پر کیا گیا تھا۔

آپریشن اومیگا اس کے ہوٹل کا خرچ برداشت کرنے کو تیار تھی مگر پاکستانیوں کا خیال تھا کہ وہ کسی کے ساتھ رہے تو بہتر ہے۔ گاؤں کا آدمی ہوٹل میں نہیں رہ سکے گا۔ کہاں ملتان کا ایک گاؤں اور کہاں اٹلی کا ایک ہوٹل۔ مناسب یہی تھا کہ وہ کسی پاکستانی خاندان کے ساتھ رہے، میرا بھی یہی خیال تھا۔
وہ میرے آفس میں بھی مسلسل روتا رہا۔ سرخ آنکھوں سے آنسو مسلسل بہتے رہے تھے اور وہ بے آواز رورہا تھا۔ میں بڑی دیر تک اس سے باتیں کرتا رہا۔اس نے بتایا کہ وہ سب نو بھائی بہن ہیں۔ دو بہنوں کا انتقال ہوچکا ہے، رفیق اور وہ دو بھائی تھے اور باقی پانچ بہنیں جن میں کسی کی بھی شادی نہیں ہوئی تھی۔ ان کا باپ گاؤں کے ایک جھگڑے میں قتل کردیا گیا تھا۔

اس کی ماں اور وہ سب لوگ مقامی زمیندار کی زمینوں پر کام کرتے تھے اوربال بال اسی کے قرضوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ رفیق گاؤں سے بھاگ کر لاہور بھی گیا تاکہ وہاں کام کرکے قرضہ بھی اُتارے اور بہنوں کے ہاتھ بھی پیلے کرے۔ لاہور میں تو کچھ نہیں ہُوا مگر وہ لاہور میں کسی ایجنٹ کے ہتھے چڑھ گیا جس نے اس سے کہا تھا کہ اگر وہ آٹھ بندوں کا انتظام کرلے تو وہ اس سے آدھے پیسے لے کر یورپ بھیج دیں گے۔ محمد رفیق اوراس نے مل کر علاقے میں سارے بندے جمع کرلیے تھے ان سب نے مل کر یورپ آنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

کچھ لڑکوں کے خاندانوں نے منع بھی کیا مگر ان سب کے ذہنوں پر یورپ، نوکری، پیسہ اچھی زندگی، بہنوں کی شادی، زمیندار کا قرضہ، اچھی زندگی اور آزادی سوار تھا۔ ان سب کا خیال تھا کہ وہ قرض لے کر بھی جائیں گے تو اتنا کمالیں گے کہ آسانی سے قرض اتر جائے گا۔ لاہور کے ایجنٹ نے انہیں ایسے ہی خواب دکھائے تھے، ایک ایسا یورپ جہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں جہاں کی حسینائیں ان کے انتظار میں بیٹھی تھیں بس صرف پہنچنے کی دیر تھی۔ نوکری بھی مل جاتی تھی اورزندگی کے سارے آرام بھی۔ ایسی جنت میں کون نہیں جانا چاہتا ہے

، وہ سب تیار ہوگئے تھے، اس جنت کو خریدنے کے لیے۔ وہ آہستہ سے بولا پھر خاموش ہوگیا تھا۔ میں اسے غور سے دیکھ رہا تھا سب کچھ تھا اس کے چہرے پر بے چارگی، غم، غصّہ اور مایوسی، ایسا تو میں روز ہی دیکھتا تھا مگر اس مایوسی کو دیکھ کر مجھے اندر سے رونا سا آگیا، میں نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھیں۔قرض تو نہیں اترا مگر سب کی جان چلی گئی۔ مجھے اس کی آواز آئی تھی۔ ہمارا علاقہ جیسے ویران ہوگیا ہے، ایک ساتھ اتنے لوگ پہلی دفعہ مرے ہیں وہ بھی گھر سے دُور سمندر میں ڈوب گئے، ایسا کس نے سوچا تھا، اُس نے کہا۔ میں اورمیرے ماموں لاہور گئے تھے کہ اس ایجنٹ سے پتا کریں کہ اصل میں ہُوا کیا ہے مگر نہ وہاں کوئی آفس تھا نہ ایجنٹ ملا اور نہ ہی کوئی نشان۔

پتا نہیں اس نے کیا کیا، نہ پولیس کو پتا تھا نہ سرکاری افسروں کو، نہ ہمارے علاقے کے سیاستدان آگاہ تھے، کسی کو کچھ پتا نہیں تھا مگرسب شامل ہیں صاحب سب شامل ہیں اس کام میں۔ سب پیسہ کھاتے ہیں، سب کا حصہ ہے، ہمارے جیسے لوگ اگر مر بھی جائیں تو کچھ فرق نہیں پڑتا ہے، ان کے پیٹ بھرتے رہنے چاہئیں۔ ان کے پیٹ بھر رہے ہیں۔دوسرے دن ہمارے ساتھ وہ مردہ خانے گیا اور اپنے علاقے کی نو لاشوں کو شناخت کرلیا تھا۔ ان نو لاشوں کی تصویریں اس کے حوالے کردی گئیں اور یہی فیصلہ ہُوا کہ سارے پاکستانیوں کو اٹلی میں ہی دفن کردیا جائے۔

جمعہ کو ان سب کی نماز جنازہ مقامی مسجد میں پڑھی گئی اور ایک مقامی قبرستان میں مسلمانوں کی جگہ پر ان سب کو دفن کردیا گیا۔ یہ پہلی دفعہ ہُوا تھا کہ نو پاکستانیوں کو اس طرح سے دفن کیا گیا تھا۔ مقامی اخباروں میں چھوٹی سی خبر تھی، پاکستان کے حالات کے بارے میں سچی جھوٹی کہانیاں تھیں، نہ جانے کتنے دنوں تک میرا دِل بوجھل بوجھل سا رہا، ہنستا تھا تو ایسا لگتا جیسے کوئی جرم کررہا ہوں۔دس دن کے بعد مجھے پتا چلا کہ محمد رفیق کا بھائی محمد نصیب پاکستان واپس نہیں گیا بلکہ نامعلوم ہوگیا ہے۔ مجھے اندازہ تھا کہ اسے نامعلوم کرنے میں مقامی کمیونٹی کا ہی ہاتھ ہوگا۔

پانچ سال گزرگئے، ایک دن میں کسی کام سے میلان گیا تو محمد نصیب مجھے نظر آیا تھا۔ اس نے پینٹ قمیض اور کوٹ پہنا ہُوا تھا، وہ ایک لڑکی کے ساتھ ایک اسٹور سے نکل رہا تھا۔ میں اسے دیکھ کر ٹھٹھک کر کھڑا ہوگیا۔اس نے بھی مجھے پہچان لیا اور میرے پاس آگیا تھا اس کے چہرے پر تازگی تھی اور وہ اس لڑکی کے ساتھ اچھا لگ رہا تھا۔ میں نے اس سے ملانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو وہ میرے گلے لگ گیا تھا۔ بہت خوش لگ رہے ہو میں نے اس سے اُردو میں کہا تھا۔

میں ٹھیک ہوں، بہت خوش ہوں یہ میری بیوی ہے، صوفیہ۔ یہ میلان کی رہنے والی ہے، اس نے اٹالین زبان میں مجھے جواب دیا تھا۔میں نے صوفیہ سے بھی ہاتھ ملایا اور دونوں کو سامنے ہی موجود پیزا کیفے میں کھانے کی دعوت دے دی تھی۔ وہ دھیرے سے مسکرائی تھی۔ مجھے پتا تھا کہ اس کی مسکراہٹ بناوٹی نہیں تھی۔محمد نصیب فوراً ہی راضی ہوگیا تھا اور وہ بھی خوش دلی سے تیار ہوگئی تھی۔ صوفیہ مجھے اچھی لگی تھی اور وہ دونوں ہی مجھے خوش لگ رہے تھے۔ گرم گرم اٹالین پیزا کھانے کھاتے، اس نے اپنی زندگی کے پرت کھول دیے تھے۔

مجھے پتا ہے کہ آپ ناراض ہوں گے کیوں کہ میں غائب ہوگیا تھا۔ میں ایسا سوچ کر آیا نہیں تھا میں نے تو سوچا تھا کہ بھائی کی لاش کے ساتھ واپس چلا جاؤں گا۔ مگر جن کے گھر ٹھہرا تھا انہوں نے ہی کہا کہ میں رُک جاؤں۔ کام کی کوئی کمی نہیں ہے یہاں پر۔ ہماری اُردو میں باتیں سن کر صوفیہ کھانے کے بعد یہ کہہ کر چلی گئی تھی کہ اسے کچھ چیزیں لینی ہے اور وہ تھوڑی دیر میں یہاں واپس آجائے گی۔ ہم دونوں کو ہی کوئی اعتراض نہیں تھا اس پر۔

مجھے یہاں کے ایک گاؤں میں کھیتوں پر کام مل گیا تھا پھر صوفیہ بھی وہیں مل گئی تھی اور وہیں شادی کرکے میں اٹالین ہوگیا ہوں اس نے مسکراتے ہوئے دوسری پرت اٹھائی تھی۔سب پاکستانی یہی کرتے ہیں۔ تم نے کیا تو کیا برا کیا۔ میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا تھا۔کسی کو تو قرض اتارنا تھا صاحب۔ رفیق کے لہجے میں بڑا درد تھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میرے دِل پر لگی لگی ہوئی پرانی چوٹ تازہ ہوگئی ہے۔ہمارا بہت سا قرض اترگیا ہے۔ میری دو بہنوں کی شادی ہوگئی ہے صاحب، بہت کام کرتا ہوں میں یہاں پر، میں اور صوفیہ ہم دونوں کام کرتے ہیں۔

یہ بہت اچھی لڑکی ہے صاحب نہ جانے مجھے کیسے مل گئی۔ اسے سب بتادیا ہے میں نے وہ سب سمجھتی ہے، میں بہت قسمت والا ہوں کہ میری اس سے شادی ہوئی ہے۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا تھا،تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے پانی کا ایک بھرا ہُوا گلاس پیا اور کھوئی کھوئی آنکھوں سے مجھے دیکھا اور بڑے دھیمے سے بولا تھا۔رفیق مرگیا تو ہم سب مرگئے، صاحب سب مرگئے۔ آپ نے مرے ہوئے زندہ لوگ نہیں دیکھے ہوں گے، میری ماں میری بہن سب ہی زندہ ہیں مگر سب مرگئے تھے، مرے ہوئے زندہ لوگ۔ لیکن میرے یہاں ہونے سے وہ لوگ زندہ ہورہے ہیں۔

آہستہ آہستہ ان میں جان پڑرہی ہے، ان کے چہروں پر روشنی آرہی ہے، ان کی آنکھوں نے جھپکنا سیکھا ہے، ان کے ہونٹوں پرمسکراہٹ مچلنے لگی ہے۔ اب میری چوتھی بہن کی شادی ہورہی ہے، بڑے اچھے لڑکے کے ساتھ، میری ماں نے بڑی خوشی سے مجھے بتایا ہے، وہ زندہ ہورہی ہے صاحب وہ زندہ ہورہی ہے۔ہم دونوں شادی پر جائیں گے اور اس شادی پر میں اپنی پانچویں بہن کا بھی رشتہ طے کردوں گا۔ میں نے کافی پیسے جمع کرلیے ہیں صاحب، کافی پیسے۔ مجھے پتا ہے میری ماں رفیق کو کبھی نہیں بھولے گی

لیکن جب آخری بہن کے ہاتھ بھی پیلے ہوجائیں گے تو وہ تھوڑی سی سُکھی تو ہوجائے گی۔ اسی سُکھ کے لیے تو میں یہاں رُک گیا تھا آپ سے چھپ کر۔ کچھ غلط تو نہیں کیا صاحب میں نے یہاں رہ کر؟اس نے گہری نظروں سے میری جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ اس کی نظروں میں سوال تھا، بہت بڑا سوال۔پیزا کے اس آخری پرت نے میری آنکھوں میں آنسو بھردیے تھے۔

Wed Apr 18, 2018 11:08 am View user's profile Send private message
Display posts from previous:    
Reply to topic    Siyasat pk, Pakistani Siasat Forums, Political News Home » Siasi Videos All times are GMT + 5 Hours
Page 1 of 1

 
   

Share with Friends

rss feed google plus

Daily Siasi Talk Shows

 

Close x